بدھ، 2 اپریل، 2014

کوئی چاند چہرہ کشا ہوا

کوئی چاند چہرہ کشا ہوا
وہ جو دھند تھی وہ بکھر گئی
وہ جو حبس تھا وہ ہَوا ہُوا
کوئی چاند چہرہ کشا ہوا
تو سمٹ گئی
وہ جو تیرگی تھی چہار سُو
وہ جو برف ٹھہری تھی روبرو
وہ جوبے دلی تھی صدف صدف
وہ جو خاک اڑتی تھی ہر طرف
مگر اک نگاہ سے جل اٹھے
جو چراغ جاں تھے بجھے بجھے
مگر اک سخن سے مہک اٹھے
مرے گلستاں‘ مرے آئینے
کسی خوش نظر کے حصار میں
کسی خوش قدم کے جوار میں

کوئی چاند چہرا کشا ہوا
مرا سارا باغ ہر ا ہوا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں