بدھ، 2 اپریل، 2014

سوکھے پیڑ سے ٹیک لگائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں

سوکھے پیڑ سے ٹیک لگائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں
بانہوں میں چہرے کو چھپائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں


جانے کب وہ آ جائے اس آس پہ اکثر راتوں کو
آنکھیں دروازے پہ جمائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں


کاش وہی کچھ دکھ سکھ بانٹے بس اس آس میں اکثر میں
ہاتھوں میں تصویر اٹھائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں


ماہِ نومبر میں تنہا میں اس کی سالگرہ کی شب
ویرانے میں دیپ جلائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں


اُس کی تحریروں کے روشن لفظوں کی تاثیر ہے یہ
دنیا کے سب درد بھلائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں


جسم و جاں میں پچھلی رُت جب محشر برپا کرتی ہے
دل کو یادوں میں سلگائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں


یہ تو طے ہے جانے والے کم ہی لوٹ کے آتے ہیں
پھر بھی میں اک آس لگائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں


آج صفی ہمدرد نہ کوئی درد کی ایسی شدت میں
آج اسے پھر دل میں بسائے پہروں بیٹھا رہتا ہوں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں