بدھ، 2 اپریل، 2014

بات یہ تیرے سِوا اور بھلا کس سے کریں

بات یہ تیرے سِوا اور بھلا کس سے کریں
تُو جفا کار ہوا ہے، تو وفا کس سے کریں

آئینہ سامنے رکھیں تو نظر تُو آئے
تُجھ سے جو بات چُھپانی ہو کہا کس سے کریں

زُلف سے، چشم و لب و رُخ سے کہ تیرے غم سے
بات یہ ہے کہ دِل و جاں کو رہا کس سے کریں

تُو نہیں ہے تو پھر اے حُسنِ سخن ساز بتا
اِس بھرے شہر میں ہم جیسے ملا کس سے کریں

ہاتھ اُلجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جُدا کس سے کریںتُو نے تو اپنی سی کرنی تھی، سو کر لی خاور
مسئلہ یہ ہے کہ ہم اِس کا گلہ کس سے کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں