بدھ، 30 اپریل، 2014

قبیلہ اشعریین کے

قبیلہ اشعریین کے لوگ جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ پہنچے تو جو کچھ توشہ اور کھانے پینے کا سامان ان کے پاس تھا وہ ختم ہوگیا، انھوں نےاپنا ایک آدمی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اس غرض کےلیے بھیجا کہ ان کے کھانے وغیرہ کا کچھ انتظام فرمادیں، یہ شخص جب رسول کریم ﷺ یہ آیت پڑھ رہے ہیں وما من دابۃ فی الا رض الا علی اللہ رزقھا اس شخص کو یہ آیت سن کر خیال آیا کہ جب اللہ نے سب جانداروں کا رزق اپنے ذمہ لے لیا ہے تو پھر ہم اشعری بھی اللہ کے نزدیک دوسرے جانوروں سے گئے گزرے نہیں وہ ضرور ہمیں بھی رزق دیں گے، یہ خیال کر کے وہیں سے واپس ہوگیا، آنحضرت ﷺ کو اپنا کچھ حال نہیں بتلایا، واپس جا کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ خوش ہوجاؤ، تمھارے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد آرہی ہے، اس کے اشعری ساتھیوں نے اس کا یہ مطلب سمجھا کہ ان کے قاصد نے حسبِ قرار داد رسول کریم ﷺ سے اپنی حاجت کا ذکر کیا ہے اور آپ نے انتظام کرنے کا وعدہ فرمالیا ہے وہ یہ سمجھ کر مطمئن بیٹھ گئے، وہ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ دیکھا کہ دو آدمی گوشت اور روٹیوں سے بھرا ہوا ایک بڑا برتن )جسے قصعہ کہا جاتا تھا ( اٹھائے لا رہے ہیں، لانے والوں نے یہ کھانا اشعریین کو دے دیا، انھوں نے خوب شکم سیر ہو کر کھایا پھر بھچ گیا تو ان لوگوں نے یہ مناسب سمجھا کہ باقی کھانا آنھضرت ﷺ کے پاس بھیج دیں تاکہ اس کو آپ اپنی ضرورت میں صرف فرمادیں، اپنے دو آدمیوں کو یہ کھانا دے کر آنحضرت ﷺ کے پاس بھیج دیا۔

اس کے بعد یہ سب حضرات آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کا بھیجا ہوا کھانا بہت زیادہ اور بہت نفیس و لزیز تھا، آپ نے فرمایا کہ میں نے تو کوئی کھانا نہیں بھیجا۔

تب انھوں نے پورا واقعہ عرض کیا کہ ہم نے اپنے فلاں آدمی کو آپ کے پاس بھیجا تھا، اس نے یہ جواب دیا، جس سے ہم نے سمجھا کہ آپ نے کھانا بھیجا ہے، یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ میں نے نہیں بلکہ اُس ذاتِ قدوس نے بھیجا ہے جس نے ہر جاندار کا رزق اپنے ذمہ لیا ہے۔

)معارف القرآن جلد 4 صفحہ 591، سورہ ہود: آیت 2

Posted by AWK Khan

منگل، 29 اپریل، 2014

جساسہ کے قصے کا بیان ‎ ‎

جساسہ کے قصے کا بیان

‎ ‎مفہوم حدیث: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا روایت کرتی ھیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری کر لی تو مسکراتے ہوئے منبر پر تشریف فرما ہوئے، پھر فرمایا: ہر آدمی اپنی نماز کی جگہ پر ہی بیٹھا رہے! پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں جمع کیا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا، میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داریؓ نصرانی آدمی تھے، پس وہ آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہو گئے اور مجھے ایک بات بتائی جو اس خبر کے موافق ہے جو میں تمہیں دجال کے بارے میں پہلے ہی بتا چکا ہوں، چنانچہ انہوں نے مجھے خبر دی کہ وہ بنو لخم اور بنو جذام کے تیس آدمیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے، پس انہیں ایک ماہ تک بحری موجیں ڈھکیلتی رہیں، پھر وہ سمندر میں ایک جزیرہ کی طرف پہنچے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا، بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا اور پچھلا حصہ وہ نہ پہچان سکے، پس انہوں نے کہا: تیرے لئے ہلاکت ہو! تو کون ہے؟ اس نے کہا: اے قوم! اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو؛ کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے، پس جب اس نے ہمارا نام لیا تو ہم گھبرا گئے کہ وہ کہیں جن ہی نہ ہو، پس ہم جلدی جلدی چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہوگئے، وہاں ایک بہت بڑا انسان تھا کہ اس سے پہلے ہم نے اتنا بڑا آدمی اتنی سختی کے ساتھ بندھا ہوا کہیں نہ دیکھا تھا، اس کے دونوں ہاتھوں کو گردن کے ساتھ باندھا ہوا تھا اور گھٹنوں سے ٹخنوں تک لوہے کی زنجیروں سے جکڑا ہوا تھا، ہم نے کہا: تیرے لئے ہلاکت ہو! تو کون ہے؟ اس نے کہا: تم میری خبر معلوم کرنے پر قادر ہو ہی گئے ہو تو تم ہی بتاؤ کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم عرب کے لوگ ہیں، ہم دریائی جہاز میں سوار ہوئے پس جب ہم سوار ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا، پس موجیں ایک مہینہ تک ہم سے کھیلتی رہیں، پھر ہمیں تمہارے اس جزیرہ تک پہنچا دیا، پس ہم چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار ہوئے اور جزیرہ کے اندر داخل ہو گئے تو ہمیں بہت موٹے اور گھنے بالوں والا جانور ملا جس کے بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا اور پچھلا حصہ پہچانا نہ جاتا تھا، ہم نے کہا: تیرے لئے ہلاکت ہو تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں جساسہ ہوں! ہم نے کہا جساسہ کیا ہوتا ہے؟ اس نے کہا گرجے میں اس آدمی کا قصد کرو؛ کیونکہ وہ تمہاری خبر کا بہت شوق رکھتا ہے، پس ہم تیری طرف جلدی سے چلے اور ہم گھبرائے اور اس سے پر امن نہ تھے کہ وہ جن ہو، اس نے کہا: مجھے بیسان کے باغ کے بارے میں خبر دو، ہم نے کہا: اس کی کس چیز کے بارے میں تم خبر معلوم کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں اس کی کھجوروں کے پھل کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں! ہم نے اس سے کہا: ہاں! پھل آتا ہے، اس نے کہا: عنقریب یہ زمانہ آنے والا ہے کہ وہ درخت پھل نہ دیں گے، اس نے کہا: مجھے بحیرہ طبریہ کے بارے میں خبر دو، ہم نے کہا: اس کی کس چیز کے بارے میں تم خبر معلوم کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: کیا اس میں پانی ہے؟ ہم نے کہا: اس میں پانی کثرت کے ساتھ موجود ہے! اس نے کہا: عنقریب اس کا سارا پانی ختم ہو جائے گا، اس نے کہا: مجھے زغر کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ! ہم نے کہا: اس کی کس چیز کے بارے میں تم معلوم کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: کیا اس چشمہ میں وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں؟ ہم نے کہا: ہاں! یہ کثیر پانی والا ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں، پھر اس نے کہا: مجھے امیوں کے نبیؐ کے بارے میں خبر دو کہ اس نے کیا کیا؟ ہم نے کہا: وہ مکہ سے نکلے اور یثرب یعنی مدینہ میں اترے ہیں، اس نے کہا: کیا راستے میں عروہ رضی اللہ عنہ نے جنگ کی ہے؟ ہم نے کہا: ہاں! اس نے کہا: اس نے اہل عرب کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ ہم نے اسے خبر دی کہ وہ اپنے ملحقہ حدود کے عرب پر غالب آگئے ہیں اور انہوں نے اس کی اطاعت کی ہے، اس نے کہا: کیا ایسا ہو چکا ہے؟ ہم نے کہا: ہاں! اس نے کہا: ان کے حق میں یہ بات بہتر ہے کہ وہ اس کے تابعدار ہو جائیں اور میں تمہیں اپنے بارے میں خبر دیتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں، عنقریب مجھے نکلنے کی اجازت دے دی جائے گی، پس میں نکلوں گا اور میں زمین میں چکر لگاؤں گا اور چالیس راتوں میں ہر ہر بستی پر اتروں گا، مکہ اور مدینہ طیبہ کے علاوہ؛ کیونکہ ان دونوں پر داخل ہونا میرے لئے حرام کردیا جائے گا اور اس میں داخل ہونے سے مجھے روکا جائے گا اور اس کی ہر گھاٹی پر فرشتے پہرہ دار ہوں گے، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو منبر پر چبھویا اور فرمایا: یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے، یعنی مدینہ ہے، کیا میں نے تمہیں یہ باتیں پہلے ہی بیان نہ کر دیں تھیں؟ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں! فرمایا: بیشک مجھے تمیمؓ کی اس خبر سے خوشی ہوئی ہے کہ وہ اس حدیث کے موافق ہے جو میں نے تمہیں دجال اور مدینہ اور مکہ کے بارے میں بیان کی تھی، آگاہ رہو! دجال شام یا یمن کے سمندر میں ہے، نہیں! بلکہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا، پس میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کر لی۔

صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۷۳۶۴/ حدیث.





Posted by AWK Khan

جمعرات، 17 اپریل، 2014

اہنی تقدیر میں تو کچھ ایسے ہی


سنا ہے لوگ


سنا ہے محبت میں


اسے کہنا غم زندگی


تیرے جانے کے بعد کون روکتا


تیری طرح تیرا غم


سنا ہے اسکو محبت دعائیں دیتی ہے


تجھے بھول جاؤں میں یہ میری


ٹوٹ جاتا ہے غریبی میں


تیرے ساتھ رہنے پہ بس


تم کسی اور کے ہوجاؤ جاناں


تمہیں معلوم ہے


الفت دوستی میں


تجھ سے کرتے ہیں ملاقات


جنون عشق تھا تو کٹ جاتی تھی رات باتوں میں


وفا ان دنوں کی بات ہے فراز


اس کو مجھ سے بڑی محبت ہے


ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کئے بغیر


وہ کہتا تھا میرے نام کی مہندی لگاؤ

                                       
                                                  وہ کہتا تھا میرے نام کی مہندی لگاؤ
                                                  میں کہتی تھی لاگاؤن گی اگر تم لے کے ائے تو

وہ ہم کو بھول بیٹھا ہے نہیں حیرت ہوئی سن کر

                               


                                                               وہ ہم کو بھول بیٹھا ہے نہیں حیرت ہوئی سن کر
                                                              وہ آپنی عام سی چیزوں کو اکژ بھول جاتا ہے

وقت بھی لیتا ہے کروٹیں کیسی کیسی



وقت بھی لیتا ہے کروٹیں کیسی کیسی      
عمر اتنی تو نہیں تھ پر سبق بہت سیکھ لییا     

میرے بس میں نہیں گردش


زندگی یوں بھی بہت کم ہے محبت کے لئے


یہ سچ ہے پہلے پیار ہی بسا رہتا ہے خیالوں میں


بدھ، 16 اپریل، 2014

ایک ہی شخص


آنکھجوں سے اس لئے


اچھے یا


اگر بیوفاؤں


اک بار


آج انہون نے


منگل، 15 اپریل، 2014

mana hamari zaat me


مٹا دے اپنی ہستی


میں تجھے ڈھونڈو


معلوم ہوتا ہے بھول


میں جانتا ہوں


میں تو بک جاتا ہوں


محسوس کر رہا ہوں


مرتے دیکھا ہے کبھی تتلی کو


مقام محبت تو نے


میرا دل ہے کہ سنبھلتا نہیں


میں نے تڑپ کر کہا


میں نے ہیرے کی طرح


سنو اتنے بھی پیارے


میرے ہاتھو کی لکیروں


میرا یوں چپ رہنا کہیں


میرے رگ و پے میں سما گیا وہ شخص


میرے ہی ہاتھوں پہ میرے


محبت میں یہی خوف


موسم بدل رہا ہے اپنا خیال


میں کہا سے لاؤ