بدھ، 2 اپریل، 2014

اب اے مرے احساس ِ جنوں، کیا مجھے دینا

اب اے مرے احساس ِ جنوں، کیا مجھے دینا
دریا اُسے بخشا تو صحرا مجھے دینا

تم اپنا مکاں جب کرو تقسیم تو یارو
گرتی ہوئی دیوار کا سایا مجھے دینا
جب وقت کی مرجھائی ہوئی شاخ سنبھالو
اس شاخ سے ٹوٹا ہوا لمحہ مجھے دینا
تم میرا بدن اوڑھ کے پھرتے رہو لیکن
ممکن ہو تو اک دن مرا چہرہ مجھے دینا

چھو جائے ہوا جس سے تو خوشبو تری آئے
جاتے ہوئے اک زخم تو ایسا مجھے دینا
شب بھر کی مسافت ہے گواہی کی طلبگار
اے صبح ِ سفر، اپنا ستارہ مجھے دینا
ایک درد کا میلہ کہ لگا ہے دل و جاں میں
ایک روح کی آواز کہ ’’ رستہ ‘‘ مجھے دینا
ایک تازہ غزل اذن ِ سخن مانگ رہی ہے
تم اپنا مہکتا ہوا لہجہ مجھے دینا


وہ مجھ سے کہیں بڑھ کے مصیبت میں تھا محسن
رہ رہ کے مگر اُس کا دلاسہ مجھے دینا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں