بدھ، 2 اپریل، 2014

ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا

ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
بچتے رہے ہوائوں سے در، تم کو اس سے کیا

تم موج موج مثل صبا گھومتے رہو
کٹ جائے میری سوچ کے پر، تم کو اس سے کیا

اوروں کا ہاتھ تھامو، انھیں راستہ دکھائو
میں بھول جائوں اپنا ہی گھر، تم کو اس سے کیا

ابر گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بننے نہ پائے گہر، تم کو اس سے کیا

لے جائیں مجھ کو مال غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر، تم کو اس سے کیا

تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیئے
تنہا کٹے کسی کا سفر، تم کو اس سے کیا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں