جمعہ، 14 جون، 2013

‎‫حضرت ابو قراد السلمی

‫حضرت ابو قراد السلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ خدمت نبوی میں حاضر تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کے لئے پانی طلب کیا، اس میں اپنا دست مبارک ڈالا پھر وضو کرنے لگے ، ہم لوگ آپ کے وضو کا پانی اپنے چلو میں لے کر پینے لگے { اور اپنے جسم پر ملنے لگے } آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ایسا کرنے پر تمہیں کس چیز نے ابھارا ہے ؟ ہم لوگوں نے جواب دیا : اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے ، یہ سن کر آپ نے فرمایا : اگر تم لوگ چاہتے ہوکہ اللہ اور اس کے رسول تم سے محبت کریں تو جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو طلب کرنے پر اسے پورا پورا ادا کردو ، جب بات کرو تو سچ بولو اور جس کے پڑوس میں ہو اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آو ۔ [ معجم طبرانی اوسط و مصنف عبد الرزاق ] زیر بحث حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی والہانہ محبت کو دیکھ کر ان کی توجہ اسی طرف مبذول کروائی کہ وضو کا پانی پی لینے ، اسے اپنے جسم پر مل لینے اور میرے سامنے جھک جانے سے حقیقی محبت پیدا نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس کا حق ادا ہوسکتا ہے بلکہ حقیقی محبت ان احکام و اوامر کی پیروی ہے جو میں لے کر آیا ہوں ، اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مثال کے طور پر تین اہم کاموں کا ذکر فرمایا : [1] امانت کی ادائیگی : یعنی اگر کوئی شخص تمہارے پاس کوئی امانت رکھتا ہے تو اسے ہر حال میں واپس کرنا ہے خواہ سامنے والا تمہارے ساتھ وفا کررہاہے یا نہیں اگر خدانخواستہ سامنے والا تمہارے ساتھ خیانت کررہا ہے ، تمہارے جائز حقوق کو ادا نہیں کررہا ہے تو اس کی یہ حرکت تمہارے لئے یہ جواز نہیں پیدا کرتی کہ تم بھی اس کا بدلہ خیانت کرکے دو ، نہیں بلکہ تمہیں یہ حکم ہے کہ " ولا تخن من خانک " جو تمہارے ساتھ خیانت کرے اس کے بدلے میں تم بھی اسکے ساتھ خیانت نہ کرو ۔ [2] سچ بولنا : اللہ تبارک وتعالی سچ بولنے کو پسند کرتا ہے اور سچ بولنے والے کو محبوب رکھتا ہے اور جھوٹ اور جھوٹ بولنے والے سے نفرت کرتا ہے ، سچائی و حق گوئی کو جنت میں داخلہ اور جھوٹ اور بدگوئی کو جہنم میں جانے کا سبب بتلایا ہے ، ارشاد نبوی ہے : تم لوگ سچائی کو لازم پکڑو کیونکہ سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے ، اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ نافرمانی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نافرمانی جہنم کی طرف لے جاتی ہے { بخاری و مسلم } [3] پڑوسی کا پاس و لحاظ : پڑوسی خواہ مسلم ہو یا کافر ، دوست ہو یا دشمن ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اور اس کی جان و مال و عزت کی حفاظت کا مطالبہ ہے ، پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک اللہ تعالی اور یوم آخرت پر ایمان کی نشانی اور اس کے ساتھ بدسلوکی غضب الہی اور جہنم میں جانے کا سبب ہے ، حتی کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں پڑوسی کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے والا شخص بھی داخل ہے ۔ خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کی محبت کا حقدار بننے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی ضروری ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتوں کو اپنایا جائے ، مردہ سنتوں کو زندہ کیا جائے ، اپنی خواہشات کو حکم نبوی کے تابع کردیا جائے ، یہی آپ پر ایمان کا تقاضہ اور آپ سے محبت کی نشانی ہے ، ارشاد ہے : تم میں کا کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اس کی خواہشات میری تعلیمات کے تابع نہ ہوجائیں ۔ { شرح السنہ للبغوی } بغیر اتباع کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کا حق ادا نہیں ہوسکتا‬

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں