منگل، 4 جون، 2013

رنجش ہی سہی دِل ہی دُکھانے کے لیے آ

رنجش ہی سہی دِل ہی دُکھانے کے لیے آ

آ پھر سے مُجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ



اَب تک دِلِ خُوش فہم کو ہیں تُجھ سے اُمیدیں

یہ آخری شمعیں بھی بُجھانے کے لیے آ



کُچھ تو میرے پِندارِ مُحبت کا بھرم رکھ

تُو بھی کبھی مُجھ کو منانے کے لیے آ



پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو

رسم و رہِ دُنیا ہی نِبھانے کے لیے آ



کِس کِس کو بتائیں گے جُدائ کا سبب ہم

تُو مُجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ



مانا کے مُحبت کا چُھپانا ہے مُحبت

چُپکے سے کِسی روز جتانے کے لیے آ



اِک عمر سے ہوں لذّتِ گِریہ سے بھی مِحروم

اے راحتِ جاں مُجھ کو رُلانے کے لیے آ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں