لطیف ساحل
جو بات بات پر تکرار کرنے والا تھا وہ شخص مجھ کو بہت پیار کرنے والا تھا
تری سواری تلے آکے مرگیا جو ترا قریب سے دیدار
کرنے والا تھا
تہمی نے مان لیا میرے بے گناہی میں اپنے جرم کا اقرار
کرنے والا تھا
خطا یہی ہے کہ چھپ چھپ کے تیرا نام لیا یہ جرم تو سر بازار
کرنے والا تھا
اداس لوگوں کو تیمارداری کرتے تھے یہ مشغلہ ہمیں بمار
کرنے والا تھا
میں خود بھی کھو گیا خوابوں کے سحر میں ساحل اسے نیند میں سے بیدار
کرنے والا تھا
لطیف ساحل کا غزل محمد فاران نے لکھا
جو بات بات پر تکرار کرنے والا تھا وہ شخص مجھ کو بہت پیار کرنے والا تھا
تری سواری تلے آکے مرگیا جو ترا قریب سے دیدار
کرنے والا تھا
تہمی نے مان لیا میرے بے گناہی میں اپنے جرم کا اقرار
کرنے والا تھا
خطا یہی ہے کہ چھپ چھپ کے تیرا نام لیا یہ جرم تو سر بازار
کرنے والا تھا
اداس لوگوں کو تیمارداری کرتے تھے یہ مشغلہ ہمیں بمار
کرنے والا تھا
میں خود بھی کھو گیا خوابوں کے سحر میں ساحل اسے نیند میں سے بیدار
کرنے والا تھا
لطیف ساحل کا غزل محمد فاران نے لکھا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں